شہنشاہ جبل حضرت غلام علی شاہ بادشاہ
- nassarbukhari9
- Mar 27, 2021
- 7 min read
Updated: Mar 31, 2021

ہندوستان کی سرزمین کسی ایک تہذیب یا ثقافت کی سر زمیں نہیں ہے بلکہ تہذیبوں اور ثقافتوں کا سنگم ہے۔ جو محبت،انسانیت،عرفان ذات اورعرفان خالق کے سرمدی نغموں سے اس سنگم کو ایسا تقدس عطا کرتا ہے کہ ظاہری سنگم کو بھی تیرتھ استھان بنا دیتا ہے ۔غور سے دیکھا جائے تو یہاں کی سر زمین مذہب انسانیت کے خمیر سے گندھی ہوئی ہے ،یہاں ہمیشہ سے دین دھرم اور سادھو سنیاسیوں کے محبت امیزنغمے سسکتی ہوئی انسانیت کا مداوا کرتے رہے ہیں اور لوگوں کے دلوں کو امید اور خدا پرستی سے زندہ کرتے رہے ہیں پُونچھ اورراجوری کے لوگ اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہیں کہ ان صوفیوں اور درویشوں کی سر زمین میں سے حضرت سید غلام علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ جیسے ایک قدآور اور اعلی مرتبت درویش ہوئے ہیں ۔ سيد غلام شاہ بادشاہ اور بابا صاحب کے لقب سے بھی آپ کو یاد کیا جاتا ہے۔آپ کے والد ماجد کا نام ادریس محمد شاہ اور والدہ کا نام غلام فاطمہ تھا -آپ سیداں کسرواں راولپنڈی میں پیدا ہوئے، لیکن آپ کے لیے کاتب ازل نے سر زمین پیر پنچال کو مزین کرنا لکھا تھا۔ آپ نے قرآن کریم کا درس حضرت ملا مصری سے لیا۔آپ مادر زاد ولی تھے ،بچپن ہی سے آپ پر عشق الہٰی غالب تھا زہد و تقوی عبادت و ریاضت میں منہمک رہتے بچپن ہی میں ایک واقعہ نے آپ کو مقبول کر دیا تھا جب آپ بکریوں کی اچھی طرح نگرانی نہ کر پائے تھے اور کاشتکار کی کھیتی کو خاصا نقصان پہنچا دیا ،کسان نقصان پر اڑا رہا اور بابا صاحب بضد رہے کہ کھیتی کا کوئی نقصان نہیں ہوا دونوں کے مابین چلی کشمکش میں بابا صاحب کی بات سچ ثابت ہوئی اور نور محمد نور نے اس کی یوں منظر کشی کی ہے۔
فصل بلکل صحیح سلامت کھادا مول نہ کوئی ۔۔ ایہہ کرامت دیکھ انہاں نوں ڈاڈی حیرت ہوئی([1])
کرامت کے ظہور کے بعد ہجرت کا حکم ملا اور سینہ درہ کی کچھ نشانیاں بھی بتائیں مثلا وہاں گھنا جنگل اور انگور کی بیلیں۔ سیدًاں کسرواں سے آپ نور پور پھر یہاں سے بانڈی چیچیاں ،بانڈیاںِ،شیندرہ،کالہ بن مہنڈر، ڈھیریاں بمقام لسانہ پھر سنیی سرنکوٹ درابہ چمریر گلی سے آپ شاہدرہ وارد ہوئے۔
کئی مرید بنے انہاں دے جنہاں فیض اٹھائے۔ کئی جگہ تے بھیٹک انہاں دی چلے کیتے پیارے([2])
شاہدرہ میں آپ نے ارشاد و ہدایت کا جھنڈا بلندکیا ۔طریقت کی منزلیں اور حقیقت کے مراحل طے کرنے کے بعد آپمیں سخت جلال،ولولہ،دبدبہ،اوررُعب کےاثرات چھاگئے تھے۔ حضرت زندگی بھر احسان وسلوک اورتصوف و روحانیت پر مبنی اسلامی معتقدات کی عصری انداز میں ترسیل و تبلیغ کرتے رہے۔صوفی فکر ومزاج کی حامل اس عبقری شخصیت نے اپنے بیش بہا علوم وفنون اوردیگر وسائل وزرائع کو اسلام،روحانیت اور خلق خدا کی خدمت کے لئے صرف کردیا۔
بابا صاحب کی پیشن گوئیاں
بابا صاحب کے معتقدین اور مریدین میں ان کی کئی پیشن گوئیاں مشہورہیں جن کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
1) مہاراجہ گلاب سنگھ جو اس وقت صرف ایک معمولی سپاہی گلابو تھا جس کے بارے میں اسے علاقے کا حکمران بننے کی پیشن گوئی کی اور وہ بھی سو فی صد سچ ثابت ہوئی۔گلاب سنگھ شروع ہی سے بابا کے معتقدین میں سے تھااس لئے حکمرانی ملنے پر شاہدرہ شریف کے اطراف و اکناف کا علاقہ بابا صاحب کو جاگیر میں پیش کیا۔
2) بابا صاحب نے کرم اللہ خاں کو جو بد دعا دی تھی وہ بھی پوری ہوگئی کرم اللہ خاں کے دونوں بیٹے فوت ہو ے او ر خود کرم اللہ خاں خونی پیچش میں مبتلا ہوا۔
3) روایت ہے کہ کرم اللہ خاں کے دونوں بیٹے فوت ہو ے اور خود وہ بیمار ہوگیا اس کی رانی کو احساس ہوگیا کہ بابا صاحب کی ناراضگی ہے اس رانی بنسی مائیلی نے آپ سے منت و سماجت کی اور شوہر کی غلطی کی معافی چاہی۔آپ نے معاف کردیا اور رانی سے فرمایا کے تجھے ایک بچہ پیدا ہوگا اور اس کی پیٹھ پر شیر کے پنجے کا نشان ہوگا اس کا نام آگر خاں رکھنا۔اگر تمہارا بیٹا صالح اور عادل ہوا تو اس کی حکومت برقرار رہے گی اور اگر ظلم کرے گا تو حکومت ختم ہوجائے گی۔ آپ کی یہ پیشن گوئی بھی سچ ثابت ہوئی آگر خاں پیدا ہوا بادشاہ بنا اس نے ظلم جبر اور استبداد کی فضا قائم کی اور مسند سیادت و قیادت سے بر طرف ہوا۔([3])
کشف و کمالات
بابا غلام علی شاہ بادشاہ سے بچپن ہی سے کرامات ظاہر ہونے لگی تھیں ان میں سے چند مندرجہ زیل ہیں ۔
1) روایت ہے کہ پونچھ کا راجہ رستم خان آپ کا گرویدہ تھا اس کا بھتیجہ یحي خان آپ کا بڑا معتقد تھا ۔ رستم خاں کو اس کے حواریوں نے خوب بہکایا کہ تمہارا بھتیجا تمیں قتل کر کے حکمران بننا چاہتا ہے۔رستم نے اپنے سپاہیوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ۔ سپاہی اس پر ٹوٹ پڑے وہ لڑتا رہا بابا صاحب کو اپنے کشف و کمالات سے معلوم ہوگیا اور ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا یحیی مار یحیی مار کہتے ہیں کہ گردن کٹنے کے بعد بھی یحیی نے سات سپاہی مار گرائے اور شہید ہو گیا بابا صاحب جلال میں آگے اور کہنے لگے کہ میں پونچھ کو اٹھا کر پھینک دوں گا آپ کے جلال کا یہ اثر ہوا کہ ایک خوفناک زلزلہ آیا لوگوں نے منت و سماجیت کی تب بابا صاحب کا جلال ٹھنڈا ہوا۔
2) سرنکوٹ میں ایک جوگی جادوگرتھا جو علاقہ والوں سے باقاعدہ محصول لیتا تھا اور اس نے عوام کے ذہن میں یہ بٹھا رکھا تھا کہ اگر محصول نہ دو گے تو بارش نہ ہوگی ،بابا صاحب جلال میں آگئے اور دعا کی وہاں خوب بارش ہوئی ۔
درخت سدا بہار
دربار کے سامنے ہال کے قریب ایک درخت لگا ہو ہے جو سدا بہار کا درخت کہلاتا ہے اس کے بارے میں بھی مختلف آرا ء منسوب کی جاتی ہیں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ پودا شاہ صاحب خود اپنے ساتھ لائے تھے کچھ کا خیال ہے کہ لنگر خانہ میں ایک گیلی لکڑی جل رہی تھی اور اس سے جو دھواں نکل رہا تھا وہ بابا کی عبادت میں خلل ڈال رہا تھا آپ جلال میں آگئے اور لکڑی کو باہر نکال کر گاڑھ دیا اور فرمایا سدا بہار رے چنانچہ وہ لکڑی ایک سدا بہار درخت میں بدل گئی اس میں بارہ مہینے پھل آتے ہیں کچھ ہرے پھل اورکچھ کچے پھل اورکچھ پکے پھلاور پیلے رنگ کے پھل ہر وقت درخت میں موجود رہتے ہیں ۔
تاریخ کی ستم ظریفی
بابا صاحب نے شاہدرہ کی دھرتی پر ایک ایسا چراغ روشن کیا ایک تہذیب کا چراغ ایک تمدن کا چراغ جس کی نور بار شعاعوں نے پوری ریاست کو منور کیا جس کی روشنی ایک نئے عہد کا آغاز ثابت ہوئی حضرت کی زاتی زندگی ان کے متوسلین کے لئے نمونہ تھی آپ ترک دنیا کے خلاف نہ تھے آپ کی نظر میں درویشی ترک کردنیا نہیں ہے دنیا ترک کر کے تو تارک خود ہی معاشرہ کے اوپر ایک بوجھ بن جاتا ہے آپ کی نظر میں درویشی کا مطلب ہے دنیا میں لوگوں کی خدمت کی جائے جو آئے اسے خالی نہ جانے دیا جائے،بھوکا ہو تو کھاناکھلایا جائے ننگا ہو تو نفیس کپڑا پہنایا جائے کوئی ملنے آئے اس کی دل آزاری نہ کی جائے اور سخاوت کو اپنا وطیرہ بنایا جائے کیونکہ جس کو بھی عظمت ملی اس کو سخاوت کے زریعے ہی عظمت ملی۔ اس طرح بابا کا دربار اور ان کی تعلیمات نے ایسا ماحول اور معاشرہ تشکیل دیا جس میں غریبوں کی حاجت روائی اور مظلوموں کی داد رسی کو سب سے اونچا مقام ملا ان کے دربار سے جہاں اسلام کی نشرو اطاعت ہوئی وہیں غریبوں وفقیروں،اور بے سہاروں کو دو وقت کی روٹی ملی۔ جہاں طبقہ بندی اور سماجی تفریق نہیں تھی ۔جہاں بلا لحاظ مذہب و ملت ہر ایک محترم تھا جہاں خدا کی عبادت و اطاعت میں کوئی تفریق نہیں تھی۔جہاں بندوں سے محبت بھی خالق سے محبت کی آینہ دار تھی اور جہاں مخلوق کی دادرسی بھی عین اطاعت الہی تھی ۔مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں ایک نیا سماج نیا معاشرہ تشکیل پایا۔ پاکستان سے ہجرت کر کے دعوت اسلامی کی خاطرمختلف جگہوں میں واعظ ونصیحت کرتے کرتے جموں کشمیرکے راجوری ضلع کے علاقہ شاہدرہ کو اپنے واعظ و نصیحت کا مسکن بنایا،مُفلسی و غُربت میں رہ کر دین واسلام کی تبلیغ کی اور اس فقر و فاقہ کی حالت میں بھی آپ سخاوت سے گُریزنہ کرتے تھے بلکہ ہر وقت سخاوت کےلیےتیاررہتے تھے۔
آپ کی تعلیمات سےمُحبت، اخوت، دیانتداری، امانتداری، تصوف و مساوات کا درس ملا،وہی ان کے کشف و کمالات ظاہر ہونے کے بعد انکے زُہدو تقو ی اور عبادت وریاضت کا پتہ چلتا ہے۔ تاریخی شواہد کی بنیاد پر بلا خوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بابا نے اپنی عملی جدوجہد کے زریعے اسلام کے اخلاقی اور روحانی نظام کو زندہ رکھا ۔قومی اتحاد کا اور سماج کی تشکیل کا ایک بڑا ثبوت ان کا لنگر ہے۔ یوں تو ہر بزرگ کا مزار قومی یکجہتی اور اتحاد کا نمونہ پیش کرتا ہے لیکن بابا صاحب کے مزار پر جو قومی یکجہتی اور اتحاد نظر آتا ہے وہ کہیں اورنظر نہیں آتا عجیب پُرکیف اور روح پرور منظر ہوتا ہے۔ہزاروں عقیدت مند بابا کے دربار پر آتے ہیں جبین نیاز جھکاتے ہیں فاتحہ کو ہاتھ اُٹھاتے ہیں۔نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں اور سکون پاتے ہیں فقر و درویشی کے باوجود آپ کی خانقاہ سخاوت اور فیاضی کیلئے مشہور تھی مطبخ میں جتنا بھی کھانہ پکتا تھا وہ تمام غرباء و مساکین میں تقسیم ہو جاتا تھا۔آج بھی آپ کے مزار پر ایک وسیع لنگر ۲۴ گھنٹے جاری اورساری رہتا ہے اور ہرغرباء و مساکین اور مفلوک الحال اس سے فیضیاب ہوتے ہیں۔اللہ تعالی نے اس مذہبی سماجی اورروحانی پیشوا کی تعمیری سوچ ،خلوص وللہیت،زہد وتقویٰ اور اس علاقہ میں اسلامی تہذیب وتمدن کو نور کی کرنوں سے احیائے نو بخشنے کی وجہ سے اس علاقہ کو عظیم نعمت عظمی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیوورسٹی سے نوازا۔یہ روشن قندیل ایک عرصہ تک اس علاقہ کو نور و ایمان سے منور کرکے سرائے فانی سے عالم بقا کو تشریف لےگئی۔ حضرت غلام علی شاہ رحمۃاللہ علیہ کی ذات مسوّدہ صفات سے ریاست کے لوگوں کو بہت محبت ہے اس وجہ سے موصوف کی با برکت اور با عظمت زیارت گاہ عقیدت مندوں کیلئےمرکز سعادت ورحمت ہے عقیدت مند مرد ،چھوٹے،بڑے والہانہ طور پر دن رات اس مرکز سعادت و ہدایت پر جوق در جوق آتے رہتے ہیں۔
اسے ستم ظریفی کہیے یا تاریخی بددیانتی کے اس عظیم شخصیت اور ان کے مزار کے بارے میں لوگ کم ہی جانتے ہیں۔صوفیاےکرام کے تذکرے خاموش ہیں تاریخی صفحات میں بابا کا تذکرہ بڑا اختصار کے ساتھ ملتا ہے،خود وادی میں بہت کم لوگ شاہدرہ شریف سے واقف ہیں ایک اتنی بڑی درگاہ جہاں سال میں دس لاکھ سے زیادہ زایرین حاضری دیتے ہیں عقیدت مندوں کی نظر سے اوجھل ہے ہندو پاک میں کم ہی لوگ اس درگاہ کے بارے میں جانتے ہیں بڑے عرصہ کے بعد ایک سیمنار یونیوورسٹی میں منعقد ہوا اس کے لئے میں تمام منتظمین،محبین، مخلصین (خصوصي طور پر پروفیسر ماگرے صاحب) اور تمام معاونین سیمنار کامشکور وممنون ہوں جنہوں نے اس پروگرام کو منعقد کر کے یونیورسٹی میں ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ ضرورت ہے یہاں متعدد سیمناروں کی،ضرورت ہے ان کے حیات اور کارناموں پر تحقیقی کام کیے جائے۔تاکہ نہ صرف اہل وطن ہی سے معتقدین اس طرف متوجہ ہو بلکہ بیرون ملک کے ذائرین بھی اس عظیم درگاہ پر نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لئے تشریف لائیں۔
([1]) رب دے پیارے دیوان نور محمد نور 55 ([2]) ایضا ص 56 ([3]) مجله منهاج ص

Comments