سجادگان حضرت سید شیر علی شاہ غازی
- nassarbukhari9
- Mar 31, 2021
- 4 min read
حضرت حسن علی شاہ
اکبر شاہ بادشاہ کے بعد ان کے صاحبزادےحضرت حسن علی شاہ گدی نشین ہوئے ۔انہیں روحانیت وراثت میں ملی تھی زہد و تقوی عبادت و ریاضت میں عمر بسر کی کہا جاتا ہے کہ آپ نے سات سال تک علوم قرآنیۃ کا درس دیا باپ اور دادا صاحبان سے معرفت، طریقت،اور حقیقت کے رموز سیکھے عالم دین تو تھے ہی آپ اپنے وقت کے بڑے عالم ،عامل اور فاضل بزرگ تھے انہوں نے اپنے والد محترم سید اکبر شاہ بادشاہ کی محبت میں روحانیت اور عرفان کی بیش قیمت دولت حاصل کی ۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے صاحب زادے سید مہتاب شاہ آپ کے جانشین ہوے۔
حضرت سیّد برکت شاہ
حضرت سیّد برکت شاہ سید حسن علی شاہ کے فرزند ارجمند تھے۔ موصوف دربارپیرشیرعلی شاہ کے پہلے مسند سجادگی پر فائیز ہوئے۔حضرت زندگی بھر احسان و سلوک اور تصوف و روحانیت پر مبنی اسلامی معتقدات کی عصری انداز میں ترسیل و تبلیغ کرتے رہے۔صوفی فکر و مزاج کی حامل اس عبقری شخصیت نے دربار پیر شیر علی شاہ پربحثیت مجاور عرصہ دراز تک اپنے بیش بہا علوم و فنون اور دیگر وسائل و زرائع کو اسلام، روحانیت اور خلق خدا کی خدمت کے لئے صرف کردیا۔
حضرت سیّد مہتاب شاہ
غربت اور افلاس کے باوجود سخاوت میں کامل دسترس حاصل تھی،آپ کے پاس جو نیاز و نظر آتی تھی غربا و مساکین و مفلوک الحال عوام میں تقسیم کر دیتے تھے ،آپ بھی زہد و تقوی میں منفرد مقام رکھتے تھے،آپ نے بھی اپنے اجداد کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر ہمیشہ پیارو محبت،اخوّت،یکسانیت،اعتدالیت کا درس دیا ۔مہتاب شاہ کے بارے میں مشہور ہے کہ چاولوں کی ایک بڑی دیگ پکا کر سڑک پر رکھتے اور ہر گزرنے والےسے کہتے کہ بھوک لگی ہو تو یہ بھتہ کھاؤاور اسی طرح دن بھر آنے جانے والے لوگوں کو بھتہ(پکے چاول یعنی بھات)ساگ اور لسی کھلاتے پلاتے تھے،آپ عہد شباب ہی میں دنیا سے متنفرہو کراللہ کی بندگی میں مشغول ہو گئے،آپ نے آپنے اجداد کا طریقہ اختیار کرکے کنج تنہائی کی جانب دوڑے اور ارواح باطنی سے فیض وبرکت پانے لگے ان کی تدفین درگاہ سُلطانیہ کے بڑے اور پُرانے قبرستان میں کی گئی۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے جانشین سید فرمان شاہ صاحب ہوئے۔
حضرت سید فرمان شاہ
سید فرمان شاہ کی پیدائیش ۱۹۳۰کوہوئی ۔آپ کی والدہ ماجدہ کا نام بادلہ بی تھا ،آپ کی چھے بہنیں جن کے آسماءیوں ہیں ۔چنن بی ۔ سیدہ روشی ۔سیدہ بیگم ۔سیدہ عنایتی ۔سیدہ علیاں بیگم ۔ سیدہ ظہورہ بی ۔سید فرمان شاہ نے بھی اپنا مسکن اسی گاوں کو بنایا ،آپ اگرچہ اتنے پڑھے لکھے ہوئے نہیں تھے لیکن علم لدُنی کی برکت سے وقت کے بزرگوں کےِ سرگرواور خاص وعام لوگوں کی جائے پناہ بن گئے تھے۔بچپن سے ہی آپ کے باطن سے علوم کی لیاقت و استعداد کے آثار آتے تھے۔جب آپ نے فقراور ترک تعلق کی راہ اختیار کی اور اس عالم کی اکثر سیر کرتے رہے تو بالاخر جناب نانگا باجی رحمۃاللہ کے ہاتھ پر بیعت قبول کر لی،آپ کی شخصیت کی شہرت اور بزرگی کا شہرہ عام ہواآپ ساد ہ اور خوش مزاج تھے اور فحوائے کلام نہایت دلچسب تھا، آپ شعر و سخن سے بھی زوق رکھتے تھے ۔ آپ حکایتیں اور لطیفے سنایا کرتے تھے آپ بحر توحید میں مستغرک تھے اورعرفان الٰہی کے انوار کی روشنایاں آپ کی پیشانی میں آفتاب کی روشنیوں کی طرح چمکتی تھی آپ نہ صرف شیندرہ درگاہ سلطانیہ اور اکبر شاہ بادشا کی درگاہوں کے جانشین اور متولی تھے بلکہ گاؤں کھنیتر موضع مکھیالہ اپر شیرعلی شاہ بادشاہ علیہ رحمۃکی درگاہ کے متولی بھی رہے ہیں ،جب آپ پہلی مرتبہ شیر علی شاہ کے دربار پر حاضر ہوئے آپ اکیلے بیٹھے ہوے تھے آپ کو ایک خطرناک شیر دکھائی دیا اسے دیکھ کر آپ پریشان ہوے تھوڑی دیر کے بعدوہ شیر غائب ہو گیا رات میں سید شیر علی شاہ خواب گاہ میں تشریف لائے اور کہا یہ میرا شیر تھا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے آپ یہیں مقیم ہو جائیں اور لنگر چلائیں عبادت اور ریاضت میں مشغول ہو جاؤ جب موصوف بیدار ہوئے آپ کے حوصلے بلند ہو گئے اور دل کی دنیا بدل گئی آپ تقریباّ یہاں ۲۵ سال تک بحثیت متولی رہے ہیں اور وقفے وقفے میں دربار سلطانیہ پر بھی حاضر ہوتے رہے۔ آپ کی دو شادیاں ہوئیں پہلی زوجہ محترمہ مرحومہ خدیجہ بی سے دو صاحبزادے ، نظر حسین شاہ اور نظیر حسین شاہ اور ایک صاحب زادی سیدہ کنیزہ بی ۔دوسری زوجہ شاہ بانو جو راقم الحروف کی دادی بھی ہیں جن کے والد صاحب حضرت سید پہلوان شاہ کا تذکرہ شجرہ نسب میں ہو چکا ہے آپ کی والدہ ماجدہ کا نام سیدہ نور بیگم اور نانی محترمہ کا نام حسن بی تھا ۔سیدہ شاہ بانو ابھی با حیات ہیں ان کے بطن سے چھے صاحبزادے اورایک صاحب زادی ہوئیں۔ صاحب زادے محکمہ تعلیم میں بحثیت استاذ تقرری ہے اور ایک محکمہ جنگلات سے بحثیت فارسٹرریٹایرڑ ہوئے اور ایک صاحبزادی بھی محکمہ تعلیم میں ملازمہ ہے،آپ بہت بڑی ذمینوں کے مالک تھے،آپ نے اپنی اولاد کی دینی اور دنیاوی تعلیم کے لئے سرفروشانہ جدوجہدکی آپ کا وصال ۸ دسمبر۲۰۰۵ بمطابق ۱۳شعبان ۱۴۲۶هـ بروز اَتوارہوا اور آپ کی تدفین دربار شیر علی شاہ رحمۃاللہ علیہ کے آنگن میں ہوئی، آپ کے وصال کے بعد آپ کے فرزند ارجمند حضرت مولانا سید امداد حسین شاہ جانشین ہوئے۔
Comments