top of page
Search

تذکرہ حضرت سید شیر علی شاہ غازی

گاؤں کھنیترضلع پونچھ سے دس کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے ،کھنیتر سے ایک لنک روڈ سر زمین مکھیالہ کی طرف جاتی ہے ،یہ سڑک درگاہ تک ابھی نہیں پہونچی ہے اس کے اسباب جو بھی ہو یہ درگاہ مکھیالہ کی چوٹی پر واقع ہے ۔یہ گاؤں اپنی خوبصورت بلند وبالا چوٹيوں، گھنے جنگلات،زرخيز علاقوں کی بدولت مضافاتی علاقوں ميں مشہور ہے۔پھر اگران جگہوں کی نسبت ایسے اولیاے کرام سے ہو جو زہد و تقوی ،کشف و کمالات میں اعلی درجہ پر فائز ہو تو ان جگہوں کی قدرومنزلت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ خیرقدرت جب کسی چیز کی تکمیل کا ارادہ کر لیتی ہے تو اس کے لئے مخصوص اسباب و مقدمات پیدا کرتی ہے یہ چیزیں اپنے معینہ اوقات میں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ چنانچہ یہاں بھی ایسا ہی ہوا اس مکھیالہ کی چوٹی اور یہاں کے پہاڑوں ،بیابانوں ،جنگلوں کو آباد کرنے کے لئے حضرت سید شیر علی شاہ غازی کو پیدا فرمایا۔ حضرت شیر علی شاہ غازی رحمۃ اللہ علیہ قدآور اور اعلی مرتبت درویش ہوئے ہیں ۔ حضرت سید شیر علی شاہ سید سلطان شاہ غازی جن کی درگاہ گاؤں شیندرہ میں مرجع خلائیق ہے کے پوتے حضرت سید اکبر شاہ بادشاہ کے فرزند ارجمند تھے۔ بچپن ہی سے آپ پر عشق الہٰی غالب تھا ،آپ سردیوں کے موسم میں گاؤں شیندرہ کے نالے میں عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ شیر کی سواری کیا کرتے تھے اسی نسبت سے آپ شیرعلی شاہ کے نام سے موسوم ہوگئے آپ سیر وسیاحت کرتے اور دوران سیر و سیاحت آپ اسلام کی ترویج و اشاعت بھی کرتے رہے آپ بلند پایا بزرگ رہے ہیں ،آپ نے تقریباّ ۱۵سال تک چلہ کشی کی آپ اتنے بڑے صوفی بزرگ گزرے ہیں کہ رات دن آپ اپنے حجرے میں چلا کشی کرتے رہے

کہ آپ کی سگی بہن آپ سے ملنے آئی تو آپ نے منع کیا کہ میری نظر کسی عورت پر نہ پڑ جائے آپ مسلسل چلہ کشی کرتے رہے اور اپنی آنکھوں میں مرچ ڈال دی کہ کسی غیر محرمہ پر نظر نہ پڑ جائے بہن کے مسلسل اصرار کے باوجود دیدار نصیب نہیں ہوا ۔آپ عشق الٰہی اورنشہ محبت رسولﷺ میں مدہوش رہے ہیں اسی جذب ومستی کے عالم میں بابا صاحب پہاڑوں ،بیابانوں ،جنگلوں میں گھومتے رہتے اُن کی نیند سوزش عشق میں جل گئی اور چلچلاتی ہوئی دھوپ برداشت کرتے رہے اور آپ عبادت اور ریاضت میں مشغول رہے۔ ان کی تعلیمات کا لب ولباب نفس کشی، گوشہ نشینی، توکل بر خدا و قناعت و صبر و رضا تھا، کہا جاتا ہے کہ پیدائش سے ہی اس طرح کے اَثار ملنے لگے تھے کہ یہ بچہ اگے چل کر ایک بڑا متقی و پرہیز گار اور بردبار بزرگ بنے گا۔حقیت یہ ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت کسی مدرسہ یا خانقاہ کی مرہون منت نہ تھی بلکہ انہوں نے جو کچھ بھی حاصل کیا تھا وہ اپنے اجداد سے اور روحانیت آپ کووراثت میں ملی تھی دوسرے عبادت و ریاضت ،چلہ کشی،گوشہ نشینی، ترک لذات سے حاصل کیا-

نور محمد نور اپنے شعری دیوان میں بابا شیر علی شاہ کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں۔

رونق مزاراں دے اُتے روز لگدے میلے۔ حاجتمند کئی حاجت پاندے نال نیک وسیلے

اولیاواں دی دھرتی اسنوں جیکر کہیا جاوے سچو سچ ایہہ بات ہے ساری کون انکار لے آوے

جیونکر پونچھ اولیاواں اندر حالت دساں دل دی حضرت شیر علی شاہ غازی اولیاء گزرے باری

کھنیتر وچ مکھیالے روضہ لشکے وانگ ستارے لَکھ عقیدتمنداںآکے ایتھوں فیض اٹھائے([1])



بابا شیرعلی شاہ بادشاہ نے عشق الٰہی میں غوطہ زن ہو کر بیاہ شادی کو الوداع کہہ دیا تھا بیاہ شادی کو قطع تعلق کرنے کے بعد آپ نے موضع کھنیتر اپر مکھیالہ ایک غار میں پندرہ برس تک چلہ کشی کی اسی اثنا ء میں آپ کی خوراک جنگلی سبزیوں کے علاوہ کچھ نہ تھی اور وہی گوشہ نشینی اختیار کی اور عمر عزیز کا بقیہ حصّہ یہیں گزارا آپ کا وصال۲۰رجب المرجب۱۲۶۲هـ کو ہوا اور موضع مکھیالہ میں آپ کی آخری آرام گاہ متعین ہوئی۔

کشف و کرامات

1) ایک دفعہ کوئی پردیسی کہیں جا رہا تھا آپ اس وقت موضع شیندرہ میں مقیم تھے حضرت کے ہاں پہونچتے ہی شام ہو گئی رات کیلئے جگہ طلب کی مسافر کے ساتھ ایک گائے بھی تھی گائے کو مال مویشیوں کے کمرے (بانڈی) میں باندھ دی رات کو شیر نے گائے کونگل دیا صبح ہوتے ہوے مسافر گائے کی عدم موجودگی کو دیکھ کر ششدر رہ گیا حضرت کے دربار میں عرض کی، پیر شیر علی شاہ نے شیر کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا مسافروں اور پردیسیوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جاتا چنانچہ شیر نے فوراّ منہ کھولا اور گائے کو اُگل دیا ۔

2) بابا شیر علی شاہ امور خانہ داری اور گھریلوں کام کاج میں مصروف رہتے تھے جب آپ بچپن میں تھے تو گھر والوں نے ایک دفعہ گوبر اٹھوایا اور چلے تو گوبر کی ٹوکری سر سے سوا گز اونچی ہو کر چل رہی تھی بہر کیف تاڑنے والوں کی نظر پڑھ گئی بابا صاحب ایک خدا دوست انسان ہیں دوبارہ امور خانہ داری کرنے سے گھروالوں نے منع فر مادیا ۔

3) جب آپ موضع مکھیا لہ میں چلے گئے تو وہاں پانی دستیاب نہ تھا ایک دن شیر کی سواری سے آپ اس جنگل سے چلے آرہے تھے راستے میں پیاس لگی اور اپنے مرید کو اپنا عصادیا اور حکم دیا کہ پتھرپرعصا کو کھٹکھٹاؤ ایساکرنے سے وہا ں اللہ تعالٰی کے فضل سے ایک چشمہ پھوٹ گیا اور آج تک وہی پانی لنگر کیلئے استعمال ہوتا ہے اور دیگر مقامی لوگ بھی اس کو استعمال کرتے ہیں۔

4) کہا جاتا ہے کہ وصال کے ایک لمبے عرصے کے بعد آپ ایک دفعہ متعلقین میں سے ایک شخص جناب نورمحمدکی خواب گاہ میں تشریف لائے اور حکم دیا کہ میری آنکھوں پر مٹی پڑی ہے قبر کا پردہ چاک کرکے مٹی اُٹھائیں موصوف کو پہلی مرتبہ تعجب ہوا دوسری اور مسلسل تیسری بار بھی خواب میں یہی دیکھا جب موصوف نے علما ئے کرام ، امراء اور رؤساء اور متعلقین کو جمع کیا، تین بکروں کو ذبح کر کے ایک بڑی نیاز کا اہتمام کیا ،قبر کا پردہ چاک کیا گیا اور حقیقت میں دیکھا کہ آنکھوں پر مٹی پڑی ہوئی تھی اور ایک لمبا عرصہ ۸۰سال گذرنے کے بعد بھی آپ کا جسد ترو تازہ تھا([2]) اور اس آیت کا مصداق تھا کہ:"الأ إن أولياء الله لا خوف عليهم ولهم يحزنون" گویا آپ کا جسم مبارک یہاں تک کے کفن پر اس مٹی کے علاوہ اور کوئی چیزنہ تھیِ ،آپ کا جسم صحیح سلامت اور ترو تازہ تھا چنانچہ مٹی ہٹائی گئی اور جسم پر کوئی تغیرّ واقعہ نہیں تھا،ناظرین نے دیدار کا شرف حاصل کیا،دوبارہ جو دیدار کے لئے آتا تھا آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاجاتا تھا۔ان کی قبر کی ہمسائیگی میں حضرت سید برکت شاہ اور سید فرمان شاہ اور درگاہ کے بائیں حضرت سید بہار شاہ کی قبریں موجود ہیں ۔

5) ایک اور بڑی کرامت جسکا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ آپ کے وصال کے بعد آپ کے کچھ آثار جو ایک تھلیے میں محفوظ آپ کے حجرہ میں ٹنگے ہوئے تھے جن کو متعلقین تبرکات کے طور پر استعمال کرتے تھے کہ ایک دن فوج نے اس مزار اور اس کے بغل میں بنے ہوئے آپ کے مکان کی تلاشی شروع کی دوران تلاشی اس مکان میں جو بھی بابا صاحب کے کتب ،ضروریات کی چیزیں جو بھی برتن ملے سب کو آگ لگا دی اور پورا مکان جل گیا ۔اسی اثنا میں فوج میں باہمی تصادم شروع ہو گیا اور خوب گولہ باری کا تبادلہ ہوا کہا جاتا ہے کہ نصف سے زیادہ فوجی ہلاک ہوگئے جب فوجی سربراہ کو اس بڑے سانح کی خبر موصول ہوئی تواس نے بابا صاحب کے دربار پر منت و سماجت کی اور بڑی تعداد میں نیاز و نذر کا اہتمام کیا اور معافی طلب کی۔

لنگر شریف

بابا صاحب کے مزار پر جو قومی یکجہتی اور اتحاد نظر آتا ہے وہ کہیں اور نظر نہیں آتا قومی اتحاد کا ایک بڑا ثبوت ان کا لنگر ہے ۔ہزاروں عقیدت مند بابا کے دربار پر آتے ہیں جبین نیاز جھکاتے ہیں فاتحہ کو ہاتھ اُٹھاتے ہیں ۔نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں اور سکون پاتے ہیں فقر و درویشی کے باوجود آپ کی خانقاہ سخاوت اور فیاضی کیلئے مشہور تھی مطبخ میں جتنا بھی کھانہ پکتا تھا وہ تمام غرباء و مساکین میں تقسیم ہو جاتا تھا ۔آج بھی آپ کے مزار پر ایک وسیع لنگر جاری ہے اور ہر غرباء و مساکین اور مفلوک الحال اس سے فیضیاب ہوتے ہیں ۔ آج بھی گاؤں میں ان کے پھیلائے ہوئے نور کی کرنیں اُجالا کر رہی ہیں آپ نے اس علاقہ میں اسلامی تہذیب و تمدن کو حیا ت نو بخش کر ایک منفرد تاریخ رقم کی ۔ عقیدت مند مرد ،چھوٹے ،بڑے والہانہ طور پر دن رات اس مرکز سعادت و ہدایت پر جوق در جوق آتے رہتے ہیں ۔

([1]) رب دے پیارے ص۔55 ([2])( حاجي كاكا خان چوہان سے روایت ہے کہ میری عمر اس وقت ۲۵ سال تھی اور بابا صاحب کے وصال کو ۸۰ سال گزر گے تھے۔ موصوف کا انتقال ۲۰۰۴ کو ہوا)



 
 
 

Yorumlar


Post: Blog2_Post

Subscribe Form

Thanks for submitting!

9797615954

©2021 by Urooj o zawal. Proudly created with Wix.com

bottom of page