top of page
Search

حضرت سید مظفر شاہ بادشاہ مست قلندررحمۃاللہ علیہ

پُونچھ کے لوگ اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہیں کہ اس صوفیوں اور درویشوں کی سر زمین میں سے حضرت سیّد مظفر شاہ مست قلندرجیسے ایک قدآور اور اعلی مرتبت درویش ہوئے ہیں،بچپن ہی سے آپ پر عشق الہٰی غالب تھا حضرت مظہر فیوض و برکات اور مصدر حالات و کمالات تھے،رُوحانی راہ کی باریکیوں کو علوم و معارف کی واقفیت میں جمع کرکے مسند سیادت و ولایت کو زینت بخشی ،سلوتری میں آپ نے ارشاد و ہدایت کا جھنڈا بلندکیا۔ اورآپ کے فنافی اللہ، بقاباللہ کشش اور استغراق کے مراتب تھے،اس پاکباز اور اعلیٰ کردار مرد خُدا نے کُفر اورالحاد کے اندھیروں میں بھولے بھٹکے ہوئے گمراہ انسانوں کو راہ حق دکھانے اور بنی نوع انسان کی خدمت اور جذبے کے تحت عوام الناس کوجوق در جوق اپنی جانب کھینچ لائے ۔

حضرت سائیں مظفر شاہ منفرد مجذوب وسالک تھے، آپ کی کیفیات قلبی عجیب ودلکش تھیں آپ اعلی درجہ کے صاحب مکاشفات و مشاہدات تھے، سائیں صاحب تصوف کے قلندریہ سلسلہ سے وابستہ تھے اور مکمل طور پر تارک الدنیا ہو چُکے تھے ۔وہ ایک مست قلندر اور پاک باطن بُزرگ تھے جنہوں نے زندگی کا ہر لمحہ قیمتی جان کر خُدا کی خُوشنودی حاصل کرنے کے لئے بڑی عبادت و ریاضت کی۔آپ کی شریکہ حیات مُحترمہ مقصود بیگم نیک سیرت صالح اور پاکیزہ خاتون ہونے کےعلاوہ پابند صوم و صلوۃ خاتون ہیں جن کےبطن سےآپ کے تین فرزند ہوئے۔ جن کے آسماء يوں ہیں۔ سید کرامت شاہ ۔ سید سرفراز شاہ۔ سید جمال شاہ ۔

سائیں صاحب وہ اللہ کے مست قلندر تھے، نہ جانے کتنے ظُلمت کدہ چراغوں کو روشن کیا ،اور انکی احسانی کیفیت سے متاثر ہو کر بے شمار لوگ راہ راست پر آگئے انھوں نے اپنے علم و عمل سے انسانی سماج میں عظیم انقلاب برپا کیا اور مرجع خلائق ہوئے،بے پناہ پرہیزگاری،طویل خلوت نشینی اوردینداری کے اعلیٰ رُتبے پر پہنچ کر۲۵شوال المکرم۱۴۳۲ھ میں وصال کر گئے۔ حضرت کو صوفیانہ کلام سننے اور پڑھنے کا بے حد شوق تھا آپ رموز الگنج،عُلوم الاولیا،سیف الملوک،کو خود ترنم کے ساتھ پڑھا کرتے تھے اور سائیں مشتاق ،سائیں ظہور،عالم لوہار وغیرہ کو بڑی عقیدت کے ساتھ سُنتے تھے ۔

حضرت کی بہت سی کرامات ہیں جن لکھا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے تاہم اختصار کے ساتھ چند کرامت کا تذکرہ مناسب سمجھتا ہوں۔

1) آپ کڑیوں والے پیرکے نام سے جانے جاتے تھے ۔ان کڑیوں کو دور دراز کے علاقوں سے منگواناآپ کی بڑی کرامت تھی،آپ سلوتری بیٹھ کر کڑیوں کی نشاندہی اپنے مریدوں کو کرواتے تھے، مثلاَ کڑیوں کی لمبائی وچوڑائی،ساتھ میں کون سا پیڑ ہے یہ بھی بتا دیتے تھے ،عقیدت مند بڑی محبت کے ساتھ جاتے اور ان نشانیوں کو دیکھتے اور پرکھتے اور جب نشانیاں میل کھاتی تو پیڑ کو کاٹ کر ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کا امنڈتا ہوا سمندراس زمین پر زکر الہیٰ کا ڈنکا بجاتے ہوئے ان کڑیوں کو کھینچ کر آپ کے دربار پر لاتے پُونچھ راجوری میں جن راستوں سے یہ پیڑ (کڑیاں) گُزریں ہیں وہاں آج سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔

2) دوسری بڑی کرامت جو ماسٹر شمعون اس کرامت کے عینی شاہدین میں سے ہیں کہتے ہیں ایک دفعہ حضرت بابا صاحب کے مکان کے بغل میں ایک (کنوّاں )،تالاب پانی سے بھرا ہو اتھا ،پانی کی نکاسی کے لئے تالاب میں ایک پتھر تھا جب اسکو نکالتے تو پانی اس کنّواں سے نکل جاتا ،ایک دن پیر صاحب خُود ایک لوہے کی پائیپ لیکر گئے جب پھتر نکالنے لگے گھر کے ساتھ6۳kb کا ٹرانسفارمرنسب تھا،تالاب کے اُوپر سے بجلی کی ترسیلی لائین گُزرتیں تھیں جب پائیپ اُٹھائی تو سر سے گُزرتیں ہوئی بجلی کی ترسیلی لائینوں سے ٹکرا گئی بجلی کے شعلے اُڑنے لگے ٹرانسفارمر مکمل طور پر خاکستر ہوگیا آپ نے بلا خوف و خطر لوہے کی پائیپ کو اپنے ہاتھوں میں تھمائے رکھا ۔ناظرین اس حیرت انگیز واقعہ کو دیکھ کر ششدر رہ گئے اور پیر صاحب سے عرض کی لوہے کی پائیپ بجلی کی تاروں سے ٹکرا کر جل گئی بابا صاحب مسکرائے اور نگاہ آسمان کی جانب کر کے فرمانے لگے واہ کیا پھول اُڑ رہے ہیں۔

3) بابا صاحب کے دربار پر ایک مکان کا تعمیری کام چل رہا تھا ،وہاں ڈسٹرکٹ راجوی سے ایک شخص جو زبان سے گونگا تھا اس تعمیری کام کاج میں مشغول ہوا،جب اس نے ایک پتھر کو پلٹنا چاہاتو بے ساختہ اس کی زبان سے بسمہ اللہ نکلا۔اور سامعین کو کہنے لگا میری زبان سے یہ کلمات پہلی مرتبہ جاری ہوئے حاضرین سامعین نے اس بزرگ سے کہا یہ کلمات بھی تو تیری زبان سے جاری ہوئے۔ سر زمین مہنڈر دربار عالیہ پیر مظفر شاہ مست قلندر کے دربار میں متعددجو کینسر اور کوڑھ کی مہلک بیماریوں کے مریض تھے آپ کے دربار سے شفا پا کے گئے ہیں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


 
 
 

Коментарі


Post: Blog2_Post

Subscribe Form

Thanks for submitting!

9797615954

©2021 by Urooj o zawal. Proudly created with Wix.com

bottom of page