جامعہ مدینہ الاسلام ایک تعارف
- nassarbukhari9
- Mar 22, 2021
- 10 min read
Updated: Mar 27, 2021
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہےجس کی پاکیزہ اور دلکش تعلیمات ہر فرد بشر کے کئے زریعہ نجات و کمال ہیں۔ اسلام،قرآن اور تعلیمات نبوی کا مقصد انسانیت کی فلاح و بقا ہے۔ لیکن انتہائی قابل افسوس بات یہ ہے کہ گمراہوں کو ہدایت اور ڈوبتوں کو بھنور سے نکالنے والے آج خود حوادثات زمانہ کی موجوں کی لپٹ میں ہیں جس امت کو خیر الامم کہا گیا ہے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر جس کی علامت و زمہ داری تھی آج خود اسی کی اکثریت بے راہ روی کا شکار ہے اس کے اسباب وعلل تو بہت ہیں جن کا احساس و تدارک بھی بہی خواھان ملت پر قرض ہے۔ میں صرف ایک سبب کی طرف ارباب علم و دانش و اصحاب ثروت وقیادت کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں کتاب و سنت کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد بخوبی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہمیں دنیا میں رہ کر آخرت کی فکر و تیاری کرنی ہے دنیا سے دل لگا کر آخرت کو فراموش کر دینا بد نصیبی ہے اور آخرت کی تیاری کے لئے دنیا سے بے تعلق ہوجانا اپنے لئے تو فائدہ مند ہوسکتا ہے لیکن ملت کے لئےہر گزسودمندنہیں ہے طریقہ اسلاف یہ رہا ہے کہ کہ وہ خلق و خالق کے ساتھ مخلص تھے ،بخوف طولات میں عرض کرتا ہوں ہم نے علم کو دو خانوں میں تقسیم کر دیا۔ ۱ ۔دین ۲ ۔دنیا جبکہ زمانہ اسلاف میں ایسا نہیں تھا اس ددر میں کتاب وسنت کے ماہرین حالات زمانہ کے عین مطابق علوم عصریہ کے بھی ماہر ہوتے تھے جیسے امام غزالی،امام رازی،ابن بطوطہ، ابن خلدون،ابن سینا، فارابی،خلیل،اور ماضی قریب میں علامہ فضل حق خیر آبادی اور امام احمد رضا ، و غیرھم کے اسمائے گرامی پیش کیئے جا سکتے ہیں اس عنوان پر لکھا جائے تو کئی جلدوں میں بمشکل تمام ایسے اصحاب کو سمیٹا جاسکتا ہے۔علم کی تقسیم شعوری اور غیر شعوری طور پر کی گئی جس کا نقصان یہ ہوا کہ عصری اداروں سے دین کو رخصت کردیا گیا اس کی جگہ مارڈن کی اصطلاح نے لے لی،ان اداروں کے طلبہ کی اکثریت دینی تعلیمات سے دور ہے انہیں حلال و حرام،جائزو ناجائز اور خوف آخرت کی معلومات ہے اور نہ ہی فکر ہماری یہ نوجوان نسل غیر شعوری طور پر چار طرح کے فتنوں میں مبتلا ہوگئی۔
۱۔ منشیات : اس وقت وبائی شکل اختیار کر چکی ہے نئے نئے طریقوں کے نشے عام سے عام تر ہوتے جارہے ہیں اس میں اسمگلر نہات ہی شاطرانہ طریقہ سے اس کی مارکیٹ کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ حکومت ،انتظامیہ اور سول سوسائٹی کی ہر تدبیر فی الحال دم توڑتی نظر آرہی ہے جبکہ نشہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ۔اللہ نہ کرے جب کوئی اس لعنت کو گلے لگا لیتا ہے وہ عزت و آبرو ،مال و دولت اور اخر میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ،ہمارے پاس ایسی مثالیں ہیں کہ خوش حال گھرانوں کے لڑکے یونیورسٹیوں میں ڈاکٹر اور انجینر بننے کے لے گئے پھر ان کے جنازے گھر لوٹے وہ تو گئے لیکن کنبے کہ ہر فرد کو آخری وقت تک آہ وزار ی کے لئے چھوڑ گئے۔
۲: مغربی تہذیب:خواستہ،نخواستہ ہمارے سماج کی نئی پود یورپین،کلچر میں ڈھل چکی ہے،مشرقی اقدار قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہے شکل وشباہت سے لیکر مرنے جینے کے جملہ رسومات تک مغرب ہی کو اپنا قبلہ بنایا جارہا ہے،مذہب بیزاری عام سی بات ہے ماڑن بننے اور دیکھے جانے کے غم میں خسیس سے خسیس حرکت کرنے میں شرم تک محسوس نہیں ہوتی یہ سلسلہ چلتا رہا تو کچھ عرصہ کے بعد ہمارے یہاں بھی اولڈایج ہاوس بکثرت ہونگے جہاں عمر رسیدہ کو دیکھنے والا کوئی نہیں ہوگا ،مادر پدر بیزار معاشرہ ہوگا جہاں خون کی کشش ختم ہوجائےگی آج بھی سرعام جوان لڑکے لڑکیاں ہاتھ ملاتے زرہ بھر شرم محسوس نہیں کرتے اس برق رفتاری کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رہا تو ہمارا علاقہ بھی یورپ کی ایک بے جان کالونی ہوگی جہاں شرم و حیا ادب و احترام،بڑوں کی عزت،چھوٹوں پہ شفقت عبادت و ریاضت کی کوئی چیز نہ ہوگی۔
۳: بے دینیت:اس وقت کرائسٹ اسکول کا جال بچھتا جارہا ہے بظاہر جہاں کا نظم و نسق اہل ثروت کو اپنی جانب مائل کرنے میں کافی کامیاب ہے وہاں کے اساتذہ عموما محنتی اور لائق ہوتے ہیں، مقابلہ جاتی امتحان کے بعد ہی جہاں طلبہ کا داخلہ لیا جاتا ہے ان اسکولوں میں متوسط اور مالدار گھرانوں کے طلبہ و طالبات ہی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں غریب بچوں کی وہاں رسائی حاصل نہیں ہوسکتی،میں نے بذات خود مسلم گھرانوں کے بچے اور بچیوں کو دیکھا جو عید،بقرعید میلاد النبیﷺ،شب قدر،شب براءت،اور ماہ رمضان کے ایام کی اس قدر تیاری نہیں کرتے جس قدر کرسمس ڈے کا اہتمام کرتے ہیں ٹھنڈےدل و دماغ سے سوچیے انہیں بچوں کی آگے چل کہ تیری نسل کیا ہوگی ۔سوچتے ہی بے اختیار آنکھوں سے خون ٹپکنے لگتا ہے اسی طرع ایک اورطبقہ تیار ہورہا ہے جو صرف نماز ،روزے،زکوۃ و حج ہی کا منکر نہیں بلکہ وہ وجود باری ہی کا انکار کرتا ہے۔ اس طرح کے لوگوں سے بھی میری ملاقات ہوچکی ہے اور یہ وبا عصری اداروں میں عام سی بات ہے ،مارڈن ایجوکیشن کے نام پر بہت سے لوگ دین وایماں سے ہاتھ دھو بیھٹے ہیں بلکہ بہت سے ولی صفت درویش لوگوں کی اولاد تک بگڑ چکی ہے۔
۴: گھریلو عمدہ تربیت کی بنیاد پر جو طلبہ و طالبات ان تین وباوں سے بچ جاتے ہیں،بد مذہب مختلف حیلے بہانے سے انہیں اپنا شکار بنانے کی کوشش کرتے ہیں،عقیدے کی صحیح معلومات نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے طلبہ اپنا عقیدہ خراب کر لیتے ہیں، پھر پہلے پہل وہ اپنے والدین اور بزرگوں کو جہلاکے زمرے میں داخل کرلیتے ہیں ،رفتہ رفتہ تقصیرات کا سلسلہ دراز ہو کر اولیا ءپھر صحابہ اور اخر میں انبیاے کرام علیھم السلام تک جا پہنچتا ہے۔ اس طرع کے کئی نوجوانوں سے بھی ملاقات رہی جنہیں بحث کا بہت شوق تھا لیکن اسلام کی بنیادی تعلیم تک ان کی رسائی نہیں تھی،بد مذہب انہیں مخصوص کورس رٹوا کر یہ زہن نشین کرواتے ہیں کہ یہ مکمل دین ہے اس کے علاوہ سب بدعت و شرک اور جہالت و ضلالت ہے اس طرح وہ پڑھ لکھ کر بھی دین کی روح تک نہیں پہنچ سکتے اور انجام ظاہر ہے گمراہی اور ہٹ درمیکے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ جن خرابیوں کی ہم نے نشاندہی کی ہے بہت سے طلبہ و طالبات پر ان کا بلکل اثر نہیں ہوتا بلکہ وہ استقامت کے ساتھ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنا عقیدہ و عمل بھی درست رکھتے ہیں ان کی گھریلو تربیت یا اچھے ساتھ کی وجہ سے ان وباوں کا شکا ر نہیں ہوتے لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے ۔
دینی ادارے: دینی اداروں کی خدمات و افادیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا آج بھی جو اسلام کی بہاریں ہیں وہ انہیں کے دم قدم سے ہیں لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیت ہے کہ آج کے حالات دعوت و تبلیغ کا جو تقاضہ کر رہے ہیں مدارس کے فارغین کی اکثریت ان تقاضوں کو پورا نہیں کر رہی ہے ، الا ماشاء اللہ فارغین مدارس تکمیل تعلیم کے بعدامامت،خطابت،مذہبی صحافت،یا درس و تدریس کا رخ کرتے ہیں شاید ا یک فیصد عصری اداروں کا بھی کر رہے ہیں اب ہم اختصار کے ساتھ ان سب چیزوں کا غیر جانبداری سے تجزیہ کر کے ارباب علم و دانش کو دعوت فکر دیتے ہیں ، حالات کا تقاضہ کیا ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں ۔
امامت و خطابت: جو عالم کسی بھی مسجد کاا مام ہوا سے پنج وقتہ نماز، جمعہ و عیدیں کی خطابت،مکتب کے بچوں کی تعلیم اور محلے کے ختمات میں حاضری کےفرائض انجام دینے پڑھتےہیں ،پنج وقتہ نمازیوں کی تعداد پانچ فیصد ہے جو جماعت کا اہتمام کرتے ہیں ہمارے سماج کے لوگ ۲۵ سے ۳۰ فیصد ہیں جو جمعہ کی نماز ادا کرتے ہیں اکثریت نماز نہیں ادا کرتی ہے امام جمعہ کو مدلل اور غیر مدلل ہر طرح کا واعظ انہیں لوگوں کو سناتے ہیں جو پابند صوم و صلوۃ ہیں جنہیں سمجھانے کی چنداں ضرورت نہیں انہیں جمعہ کی فضیلت و عظمت کا ادراک ہے اسی لئے وہ مکمل تیاری کے ساتھ جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لئے آتے ہیں ہمارا سارا زور سمجھدار لوگوں کو سمجھانے میں صرف ہوتا ہے اس اعتماد کے ساتھ کہ ہم نے دعوت و تبلیغ کا حق ادا کر دیا ہے ۔پنج وقتہ نمازوں میں کسی ایک نماز میں بعض ائمہ حضرات درس حدیث،تفسیر قرآن پاک اصلاحی کتاب کا درس دے کر درجن یا آدھا درجن مومنین کو فیضاب فرماکر ثواب دارین حاصل کرتے ہیں۔
مذہبی صحافت: پورے ملک میں گنتی کے چند رسالے اردوں زبان میں نکالے جاتے ہیں اس کے علاوہ ملکی سطح کا ایک بھی اخبار نہیں جو مذہب کی صحیح طور پر ترجمانی کرنے والا ہو اردو زبان کی حالت ہم سب پر عیاں ہے صرف مدارس اسلامیہ کی چار دیواری ہے جس نے اس زبان کو باقی رکھا ہے جموں کشمیر کی سرکاری زبان اردو ہے لیکن دفاتر کا بیشتر کام انگریزی ہی میں ہوتا ہے طلبہ و طالبات کی اکژیت اردو سے نابلد ہے ایسے حالات میں جن کی اصطلاح مقصود ہے کیا وہ مذہبی صحافت سے مستفید ہونگے،اہل علم کے لئےدعوت فکر ہے۔
درس و تدریس: ہمارے اداروں کے فارغین زیادہ تران مدارس کی زینت ہیں جہاں طالبان علوم نبوت کو پروان چڑھایا جاتا ہے اب یہ تلخ حقیقیت بھی ہے ہمارے تقریبا سبھی مدرسوں کا انحصار و دارومدار چندہ بشکل صدقات واجبہ و نافلہ پر ہے چندہ اکھٹا کرنے کا سلسلہ نہایت ذلت آمیز ہے جہاں مذہبی لوگوں کو اہل ثروت کے دروازوں پہ جانا پڑھتا ہے اور کئی جگہوں پر ان کی جلی کٹی باتیں بھی سننی پرھتی ہیں،اکژ مدارس کے زمہ داران جو اشتہارات میں اپیل شائع کرتے ہیں اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں یتیم غریب،نادار،بے کس،بے بس اور دبے کچے بچے پڑھتے ہیں لہذا آپ صدقات و خیرات کے زریعے امداد کریں ،افسوس غیر شعوری طور پر اہل نوازش اس قدر احسا س کمتری کا شکار ہوگئے کہ اب علوم نبوت کے حامل یہی لوگ رہ گئے اہل ثروت کو اس سے کوئی علاقہ نہیں غور فرمائیں کہ دس بارہ سال تک ایک طالب علم جب یہ سنتا رہے گا تو اس کے اندر جرآت و ہمت اور اولوالعزمی کیسے پیدا ہوگی اس سے انکا رنہیں کہ مدارس کے اندر بہت زیادہ محنت کروائی جاتی ہے اور دقیق ترین کتابیں طلبہ کے ذہن نشین کروائی جاتی ہیں ان حالات میں بھی مدارس کے تعلیم یافتہ حضرات میں گہرائی اور گیرائی کے ساتھ زندگی گزارنے کا سلیقہ بھی بہتر ہے مدارس کے نصاب پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے اور طریقہ تعلیم میں بھی کہیں کہیں اصلاح کی ضرورت ہے تحدیث نعمت کے طور پہ عرض کرتا چلوں راقم کے ساتھ ساتھ حضرت مولنا مفتی ڈاکٹر محمد ابراہیم مصباحی اسیسٹنٹ پروفیسر شعبہ عربی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری ۔ مولانا مفتی ڈاکٹر محمد آصف ملک مصباحی اسیسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری حضرت مولانا مفتی محمد اسلم مصباحی دارالافتاءجموں،حضرت مولانا حافظ سکندر حیات خاں مصباحی ازہری یہ وہ ہیں جو علوم قدیمہ اور جدیدہ کےبہترین جانکار ہیں۔ ان حضرات نے کافی کدو کاوش کے بعد ایک نیا نصاب تیار کیا ہے جس کی خوبی یہ ہے کہ اعتدال و توازن کے ساتھ علوم اسلامیہ اور علوم عصریہ کا خوبصورت سنگم ہے۔یہ نصاب محنت سے پڑھنے والا جہاں باصلاحیت عالم ہوگا وہیں علوم عصریہ کا بھی ماہر ہوگا مدارس میں تکمیل تعلیم کے بعد اسے اس اہل بنا دیاجائے کہ وہ ملک کے ہر کالج کا دروازہ کھٹکھٹائے یہ اس کی اولعزمی ہے کہ اس دروازے سے اندر جا کر مزید علوم عصریہ کی تحصیل کے بعد اعلی مناسب پر بھی جا سکے اس زمانے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ کالج و یونیورسٹی میں جانے کے بعد جہاں وہ اپنی تعلیم مکمل کر کے ڈگری حاصل کرے گا وہیں دوسرے طلبہ کے لئے بہترین ائیڈئل بھی ہوگا اور مضمون کے شروع میں جن خرابیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان طلبہ کو اس ماحول سے بچا کر اچھا اسلامی ماحول دینے کے لئے بھی کوشاں رہے گا تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ کسی بھی فیلڈ میں جائے تو وہ محتاج نہیں رہے گا بلکہ خود کفیل ہوگا ہمارے مدارس کے اکثر فارغین مختلف الخیال اشخاص اور مختلف الادیان افراد کے درمیان اسلام کا صحیح تعارف کروانے اور انہیں دین اسلام کی سائنٹیفک انداز میں دعوت دینے سے قاصر ہیں اس نصاب کو پڑھنے والے بحمد ہ تعالیٰ بلا لومت لائم دعوت الی اللہ کے فرائض انجام دیں گے داعی کی حثیت معالج کی ہے اور صاف ظاہر ہے کہ معالج کو بیماریوں کا پتہ ہونا چاہیے تبھی وہ تشخیص کے بعد مریض کا علاج کر سکے گا ۔اگر معالج مرض سے بے خبر ہوتو بسا اوقات صحیح تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے مریض کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے اس کی مکمل ذمہ داری بھی معالج پر ہے ہاں تشخیص و علاج میں کوئی کمی نہ ہو اور مریض مر جائے تو معالج یقینا بری الذمہ ہے ہمارے اکثر فارغین داعی نہیں ہیں، انہیں داعی بھی بنانا ہے اور مکمل داعی بنانا ہے تاکہ وہ حالات زمانہ کی نبض شناسی کی بعد اسلام کا وہ نسخہ کیمیا پیش کریں جس سے مردہ معاشرے کی رگوں میں زندگی کا لہو دوڑنے لگے یہ اس وقت ممکن ہے جب ہم حالات زمانہ کے اعتبار سے تعلیمات اسلامیہ کو صحیح طور پہ پیش کر سکیں گے۔مختلف اداروں میں درس و تدریس اور مختلف علاقوں میں وعظ و نصیحت کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ کچھ ایسے ادارے تیار کیے جائے جو باقی والوں کے لئے رول ماڈل ہوں پھر خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑنے والی مثال صادق آے گی ۔اور رفتہ رفتہ ہمارے سارے ادارے معیاری بھی ہونگے اور دعوت و تبلیغ کے مرکز بھی اور علوم قدیمہ و جدیدہ کے مخزن بھی اسی پر طرہ امتیاز یہ کہ فیس دے کر طلبہ تعلیم حاصل کریں گے جس کی وجہ سے مدرسین اور ارکان کا بوجھ کم ہو جائے گا اور معیاری تعلیم عام ہوگی یہاں کے پروردہ علوم اسلامیہ و عصریہ کے سنگم ہونگے اور ان میں وہ خرابیاں نہیں ہونگی مضمون کے ابتدا میں میں نے جن کا تذکرہ کیا ہے ۔ انشا اللہ مستقبل قریب میں ایسا ہی ادارہ جامعہ مدینہ الاسلام بھی ہوگا ۔جہاں اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ مذکورہ نصاب کے ساتھ ساتھ انگلش،سائینس حساب اور کمپیوٹر کی تعلیم لازمی ہوگی
ادارے کو مرحلہ وار پروان چڑھایا جائے گا فی الحال ایک بلڈنگ کا کام شروع ہے جو انشا اللہ پانچ منزلہ ہوگی جس کی پہلی منزل میں۱۲ْ ۱۵ کے اٹھارہ کمرے زیر تعمیر ہیں پہلی منزل کی تکمیل کے بعد ان شا ءاللہ تعلیم کا آغاز کر دیا جائے گا،نصاب تعلیم بارہ مہینوں پر محیط ہے اس طرح پہلی منزل کی تکمیل کے بعد بارہ سال کا عرصہ درکا ہے جب ادارے کی پہلی فصل تیار ہوگی پورے اخلاص اور للہایت کے ساتھ کام کی شروعات کر دی ہے پائے تکمیل تک پہنچانہ میرے رب کا کام ہے۔ تعاون کے طریقے۔
ادارے کے مستقل ممبر بنیں
ادارے کے اعززای ممبر بنیں
مرحومین کے نام کا کمرہ بنوائیں
میٹرئیل سریا، سیمنٹ، اینٹ، بجری ،کھڑکیاں، دروازے، مزدور و مستری کی مزدوری میں حصہ لے کر تعاون فرمائیں
مقدس مقامات اور مقدس اوقات میں ادارے کی ترقی اور ہماری استقامت کے لئے دعا کریں


Comments